Orhan

Add To collaction

چاند دیکھکر

" مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں۔ میں ون وومن مین ہوں۔ بیوی سے محبت کرنے والا۔ بالکل اپنے بھائی کی طرح۔ تو پھر واپسی کے ٹکٹ صرف چاچو' چاچی کے کروانے ہیں۔" فریدون شوخ ہوا۔

" میری ایک شرط ہے۔ انوشے کی ماما کے دل کی اصل بات زبان پر آ گئی جس کی وجہ سے وہ ایوب کی خواہشمند تھیں ۔

" کیا؟"

" بھائی صاحب ! اپ ایوب کی بجاۓ فریدون کو بزنس میں چئیر مین بنائیں گے۔" وہ ہر صورت فریدون اور انوشے کو صبا سے برتر دیکھنا چاہتی تھیں۔

" منظور ہے۔" ایوب نے کھلے دل سے کہا۔ صبا اور تائی نے حیرت سے اسے دیکھا۔

" فکر مت کرو۔ تمہارا ایوب سچ میں چھپا رستم ہے۔ تم کیا سمجھتی ہو۔ میں ابو کے بزنس کی وجہ سے کامیاب بزنس مین ہوں۔ نہیں یار! میرا خود کا کام بھی ہے۔ امپورٹ اور ایکسپورٹ کا۔ میں بیوقوف نہیں ہوں کہ شراکت والے کام پر بھروسہ کر کے بیٹھا رہوں۔ ابو کے کام میں میرے علاوہ فریدون' زہرا آپا اور ہانیہ بھی حصے دار ہیں۔ میرے خود کے بزنس کا میں اکلوتا مالک ہوں بلا شرکت غیرے۔ اور یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ گھر کے ادھے اخراجات میں خود اپنی جیب سے پورے کرتا ہوں۔تمہارا پلڑا یہاں بھی بھاری ہے جانم۔" وہ سرگوشی کے انداز میں بولا۔صبا مسکرا دی۔

انوشے اور فریدون کا نکاح ہوا۔ مبارک سلامت کا شور مچا۔ فریدون اپنے کمرے میں چلا گیا اور انوشے اپنے کمرے میں ۔ رخصتی ایک کے بعد ہونا قرار پائی تاکہ انوشے کی بھی پڑھائی مکمل ہو جاۓ اور فریدون بھی فیکٹری کی بھاگ دوڑ اچھی طرح سے سنبھال لے۔ سب نےصبا کے سر پر ہاتھ رکھا اور شرمندہ سے اپنے اپنے کمروں میں گھس گئے۔

" چلیں۔" ایوب نے ہاتھ اگے کیا۔

" کہاں؟" اس کا دل دھڑکنے لگا۔

" میرے کمرے میں ۔ میرا مطلب ہے ہمارے کمرے میں۔" وہ سرگوشی کے انداز میں بولا۔ اس نے حنائی ہاتھ ایوب کے ہاتھ میں تھما دیا۔

نہ راہوں میں پھول بچھے تھے' نہ سیج سجی تھی اور نہ شادیانے بجے تھے پھر بھی وہ کسی ملکہ کی طرح ایوب سلیمان کے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ کھڑکی کے پار عید کا چاند مدھم ہو رہا تھا۔ اپنے چاند کو دیکھ کر اس چاند کو دیکھا تھا ۔ قسم کھائی تھی' پوری کر دی۔

" اب عید ملو۔" اس نے دروازہ بند کر کے بازو وا کیے۔ وہ انگوٹھا دکھا کر آگے بھاگ گئی۔

" صبح نماز کے بعد عید ملیں گے۔" وہ خوشی سے ہنسی۔

" باقی سب کو صبح ملیں گے۔ ہماری عید تو ابھی ہوئی ہے۔ اس نے اسے بازو سے پکڑ کر کھینچا۔ وہ اس کے بازوؤں میں سما گئی۔

شوہر کی مضبوط بانہیں کسی قلعے کے حصار کی طرح ہوتی ہیں۔ صبا نے زندگی میں پہلی مرتبہ اس تحفظ کو محسوس کر کے ایوب کی لمبی عمر کی دعا کی تھی۔

عید کا چاند آمین کہہ کر نیند کے مزے لینے بدلیوں کی آغوش میں چلا گیا۔

   3
1 Comments

Khan sss

29-Nov-2021 10:50 AM

Good

Reply